(شمائلہ احمد‘ مہرشاہ‘ خانیوال)
تندرستی انسان کیلئے سب سے بڑی نعمت ہے۔ تندرستی کی قدر کسی بیمار سے پوچھو! یہ مقولہ تو عام ہے مگر صحت تباہ کرنے والے عناصر میں سب سے اہم نظم و ضبط سے دوری ہے۔ دراصل سارا نظام کائنات نظم و ضبط ہی کی مرہون منت ہے۔ سورج نکلنا اور غروب ہونا‘ سردی‘ گرمی کے مہینے اور رات دن کاآنا جانا‘ سب اوقات مقرر ہیں‘ نہ تو کبھی سورج طلوع ہونے میں دیر سویر کرتا ہے اور نہ ہی گرمی یاسردی مقررہ مہینوں سے پہلے یابعد میں آتی ہے۔
اسی طرح انسان کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک مخصوص نظام دیا ہے قرآن کریم میں بھی کہا گیا کہ ’’عقلمندوں کیلئے نشانیاں ہیں‘‘ اب انسان اپنی زندگی کو اگر سلیقے سے گزارتا ہے تو فائدہ اسی کا ہے۔ صبح سویرے وقت پر بیدار ہونا‘ نماز فجر پڑھنا انسانی زندگی پر بہترین اثرات مرتب کرتا ہے۔ مگر جو لوگ دیر سے سوتے اور دیر سے جاگتے ہیں وہ اپنا نقصان اپنے ہاتھوں سے ہی کرتے ہیں۔ صبح سورج کی کرنیں انسانی صحت کیلئے بہت اچھی ہیں‘ اچھے ہارمونز پیدا ہوتے ہیں۔ صبح کی سیر آنکھوں کی بینائی اور جسم کی چستی کیلئے مؤثر ہے۔ صبح خیزی حاصل کرنے کیلئے اہم بات یہ ہے کہ رات کو جلدی سویا جائے۔ اسی طرح ناشتہ ٹائم پر کرنا‘ دوپہر اور رات کا کھانا بروقت کھانا بھی نظم و ضبط کا حصہ ہے۔
طلبہ کے لیے سکول و کالج‘ ورکرز کا دفتر وقت پر پہنچنا بھی اہم ہے پابندی وقت سے عزت میں اضافہ بھی ہوتا ہے اور تمام امور بھی تکمیل تک پہنچتے ہیں۔ گھریلو خواتین بھی اگر نظم و ضبط کا دامن چھوڑیں تو پورا خاندان متاثر ہوگا۔ ماں کا تندرست اور چاق و چوبند ہونا بے حد ضروری ہے۔ نظم وضبط کا یہی اصول گھر کے سربراہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر وہ کسی کمپنی یا مل کا مالک ہے تو ملازمین تب تک وقت کی پابندی نہیں کریں گے جب تک مالک وقت کا خود پابند نہ ہوگا۔ دکاندار اور نوکری پیشہ کیلئے بھی نظم و ضبط ہی کامیابی و کامرانی کی دلیل ہے۔
نظم وضبط کو اپنانا اور ٹائم ٹیبل بنانا اگرچہ تھوڑا دشوار ہے مگر چند ہی دنوں میں انسان اس کا عادی ہوسکتا ہے۔ نظم و ضبط سے چلنا ہم سب کیلئے اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ ہر انسانی زندگی کے دوسروں پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جیسے اگر خاوند رات کو لیٹ آئے یا دیر تک کمپیوٹر استعمال کرتا رہے اس سے بیوی بچوں کا آرام بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ صبح وقت پر سکول جانے میں دشواری پیش آسکتی ہے۔ رات کو نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے روٹین کے کاموں کو بھی سرانجام دینے کیلئے بھی تازگی کی ضرورت ہوتی ہے جو وقت کی پابندی کے بغیر لاحاصل ہے۔
ریسرچ کے مطابق جن گھرانوں کے افراد ناشتے‘ کھانے اور آنے جانے کے اوقات مقرر رکھتے ہیں وہ خوش و خرم اور صحت مند رہتے ہیں مگر جن گھرانوں نے ڈسپلن اور ٹائم ٹیبل نہیں اپنائے وہ صحت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اہل خانہ مصروف ہی رہتے ہیں۔ انہیں فرصت کے لمحات دستیاب نہیں ہوتے۔ تمام افراد خانہ کو آپس میں ایک دوسرے کے ٹائم ٹیبل کو مدنظر رکھنا چاہیے تاکہ نظم و ضبط اپنا کر ہم دوسروں کی زندگیاں بھی سہل کریں اور اپنی صحت کے دشمن بھی نہ بنیں حتیٰ کہ بیمار افراد اگر ادویات بھی وقت پر نہ لیں تو فائدہ ندارد۔۔۔!!!
ورزش نہیں تو واک
ویسے تو ہم میں سےا کثر لوگوں کا کافی چلنا پڑتا ہے کبھی معمول کے کام کاج کیلئے تو کبھی کسی کے یہاں جانے کیلئے ہمیں دن میں کئی بار چلنا پھرنا پڑتا ہے چہل قدمی سے جسم کی چربی تو ضرور کم ہوجاتی ہے لیکن یہ انسان کی ذہنی و جذباتی شخصیت پر برائے نام ہی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ آج سائنسدان اس بات پر پوری طرح متفق ہیں کہ ایک رواں اور تمام تر پریشان سوچوں سے عاری چہل قدمی انسانی جسم پر نہ صرف طبی بلکہ نفسیاتی لحاظ سے بھی اچھے اثرات مرتب کرتی ہے۔ حال ہی میں ماہرین نفسیات کی ایک ٹیم نے یہ معلوم کیا کہ ہفتے میں تین بار ہلکی پھلکی اور پرسکون دماغ کے ساتھ چہل قدمی یادداشت کو بہتر بناتی ہے جو عموماً عمر بڑھنے کےساتھ ساتھ ناقص ہوجاتی ہے۔ دراصل جب آپ خود کو پرسکون کرنے کیلئے واک کرتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ذہن سے تمام پریشان کن خیالات کو نکال دیں۔ اپنی چہل قدمی کو ایک ورزش مت سمجھئے۔ آپ کی چال ہر قسم کے دباؤ سے عاری اور ہموار و ہم آہنگ ہونی چاہیے۔ گہری اور ہموار سانس لیجئے۔ ناک سے ہوا اندر کھینچئے اور منہ سے نکالیے۔ چلتے ہوئے اپنے حال توجہ مرکوز رکھئے س کی فکر مت کریں کہ کل کیا ہوا تھا اور آنے والے دن کیا ہوگا۔ آپ کی اس سیر کی کوئی خاص سمت نہیں ہونی چاہیے۔ بس پرسکون انداز میں سیدھ میں چلتے رہیے۔ جسم کو سیدھا رکھتے ہوئے جہاں دل چاہے گویا بھٹک جانے والے انداز میں واک جاری رکھئے۔ کم سے کم 20 منٹس تک یونہی خود کو دنیا وما فیہا سے بے گانہ رکھ کر آپ نہ صرف اپنا جسم و دماغ ہلکا پھلکا محسوس کریں گے بلکہ اپنے اندر ایک نیا اعتمادا ور ولولہ محسوس کریں گے۔ تحقیقات سے یہ پتہ چلا کہ جو لوگ ہفتے میں تین بار 15 سے 60 منٹس تک واک کرتے ہیں وہ ذہنی و جسمانی طور پر زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دراصل دوسری سانس کی ورزشوں کی طرح واک کرنے سے بھی دماغ تک آکسیجن کی فراہمی بڑھ جاتی ہے (جو عام طور پر عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ سست ہوجاتی ہے) اس طرح یہ دماغ کو چست اور تیزرفتار بنانے میں مدد دیتی ہے۔ بالخصوص دماغ کے وہ حصے جو منصوبہ بندی‘ اچھے برے کی تمیز کرنے اور فوری یادداشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں‘ واک کرنے سے ان کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں